بازار جا رہا تھا کہ راستے میں ایک بزرگ کو دیکھا جو زمین پر بیٹے تھے اور کہہ رہے تھے مجھے اٹھاو مجھ سے اٹھا نہیں جا رہا لوگ آس پاس سے گزر رہے تھے مگر کسی نے ان پر توجہ نہ دی میں بھی پاس سے گزر گیا مگر یہی کہتا رہا اٹھانا چائیے تھا بہن نے کہا میری ایک دوست تھی اس نے ایک عورت کے ساتھ ہمدردی کی تھی وہ اس کی انگوٹھی لے گئی تھی یہ سب فراڈ ہوتا ہے یہ لوگ چاہیتے ہیں کہ لوگ ان پر ترس کھائیں اور ھم ان کو لوٹ لیں ذہین میں یہ پوانٹ تھاکہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں کیا اس بے حسی کی وجہ بےروزگاری ہے؟
آج کل غریب والدین بھی اپنے بچوں کو محنت مزدوری کر کے اچھا پڑھاتے ہیں اور امید کرتے ہیں ہمارا بچہ اچھی نوکری کرے اور جب وہ نوکری لینے جاتا ہے تو یہی سوچ کر جاتا ہے کہ جاتے ہی اچھی نوکری ملے گی مگر نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے نوکری کی تلاش کرتے کرتے لوگوں کے رویے اس کو اتنا تلخ کرتے ہیں کہ وہ اچھائی برائی بھول جاتا ہے ۔
آج کی نوجوان نسل کا رجحان لوٹ مار کی طرف بہت زیادہ ہے جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو وہ کہتے ہیں ہمیں نوکریں دے دو ہم ایسا نہیں کریں گے جب وہ والدین سے دوسرے ممالک جانے کی بات کرتا ہے تو والدین کے پاس ان کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا والدین کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچے کو کوئی چھوٹا کاروبار ہی کروا سکیں یا جب ان کو والدین چھوٹے کاروبار کا کہتے ہیں تو وہ چڑ جاتے ہیں کہ ہم اس دن کے لیے تو اتنا نہیں پڑھے کہ کوئی چھوٹا کام کریں۔
لیکن آج کل کے بچے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر وہ چھوٹا کام کریں گے محنت کریں تو وہ ایک دن بڑے کاروبار کی شکل اختیار کرے گا وہ جس راستے پر چل رہے ہیں اسمیں ان کی کوئی عزت نہیں بلکے والدین نے ساری زندگی جو محنت اورعزت سے گزاری ہوتی ہے وہ بھی خاک میں مل جاتی ہے۔
یہ حالات دیکھ کر لوگ اتنا ڈر گئے ہیں کہ وہ جلدی سے کسی کی مدد کو راضی نہیں ہوتےکہ وہ جس کی مدد کر رہے ہیں جانے وہ کیسا ہو ایک بےروزگار اپنے حالات کی وجہ سے اتنا پریشان ہے کہ گھر جا کر اپنے بچوں کو کیا کھلائے گا ان پریشان حالات کی وجہ سے لوگ کسی کے بارے میں نہیں سوچتے وہ ایک دوسرے کو مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ والدین کی بھی پروا نہیں کرتےاس دوران والدین ان کو سمجانے کی کوشش کرتے ہیں تو والدین انہیں برے لگنے لگتے ہیں وہ انسےعلیحدگی کا سوچتے ہیں اور بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب بچہ سوچتا ہے کہ والدین چھوٹے کام کا صحیح کہتے تھے اگر میں نے اس وقت وہ کام کیا ہوتا جو میرے والدین نے کہا تھا تو آج میں کامیاب ہوتا ۔
ہمیں اپنے والدین کی بات مان لینی چائیے انھوں نے ساری زندگی گزاری ہوتی ہے وہ اپنی زندگی کے تجربات سے ہمیں صحیح بات بتاتے ہیں کیونکہ بچہ جتنا مرضی بڑا ہو جائے والدین سے بڑا نہیں ہوتا اور کوئی والدین اپنی اولاد کا برا نہیں چاہتے۔