والدین تو اس لیے بچے کو پڑھاتے ہیں کہ بچے میں تمیز۔ تہذیب۔سلیقہ۔رشتوں کی اہمیت اور اچھائی برائی کی تمیز ہو جائے مگر وہ بڑا ہو کر پیسے حاصل کرنے کے لالچ میں برا سے برا قدم اٹھا لیتا ہے چاہے وہ گناہ گار ہی کیوں نہ ہو جائے۔
ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم اپنے ساتھ کیا کر رہے ہیں کیونکہ جب کوئی مشکل آتی ہے تو ماں باپ اور بہن بھائی ہی ساتھ دیتے ہیں نہ کہ پیسہ۔
لوگ پیسے کے لیے اپنے بچوں پر بھی کوئی توجہ نہیں دیتے مثال کے طور پر اکثر دیکھا گیا ہے کہ جن بچوں کے والدین پیسوں کے لیے پارٹ ٹائم بھی جاب کرتے ہیں اور اپنےبچوں کو ٹائم نہیں دیتے اور بچہ ماں باپ کے انتظار میں رہتا ہے کہ کب اس کے ماں باپ آئیں اور کب ان سے وہ دل کی بات یا اپنا مسلہ بتائے جب ماں با پ آتے ہیں تو وہ یہ کہہ کرجان چھڑا لیتے ہیں کہ وہ بہت تھکے ہوئے ہیں کل یا پھر بات کریں گے بچہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے وہ عجیب و غریب لوگوں کے ساتھ رویہ رکھتا ہے کہ والدین کسی طریقے اس پر توجہ دیں مگر والدین کچھ پیسوں کے لیے یا اپنی خواہشات کے لیے اپنے بچوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسکی ان کی زندگی میں کچھ اہمیت نہیں جسکا برا اثر بچے کی ساری زندگی پر پڑتا ہے جب بچہ بڑا ہو کر والدین کے ساتھ غلط رویہ اپناتا ہے تو والدین کہتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لیے اپنی ساری زندگی محنت میں گزار دی اور یہ ہمارے ساتھ کیا کر رہا ہے والدین یہ کیوں نہیں سوچتے اگر انہوں نے پہلے اس پر توجہ دی ہوتی وہ آج یہ سلوک ان کے ساتھ نہ کرتا۔
ہمیں ہر رشتے کو دیکھنا ہو گا اور اسے اچھے سے نبھانا ہو گا تاکہ یہ مسائل جنم ہی نہ لیں ہمیں پیسے نہیں رشتوں کو اہمیت دینی ہو گی ان سے پیار کرنا ہو گا کیونکہ پیسے آنی جانی چیز ہے آگر کوئی عزیز رشتہ چلا جائے تو وہ پھر واپس نہیں آتا ہمیں اپنے ماں باپ بہن بھائی اولاد کی قدر کرنی ہو گی کیونکہ ان کی دعائیں زمین سےآسمان پرپہنچا سکتی ہیں تو ناراضگی خاک میں بھی ملا سکتی ہے اگر ہم رشتوں کی قدر کریں گے تو ہمارے پاس سکون ۔خوشی۔پیسہ۔ دعائیں ہر چیز موجود ہو گی اور گھر جنت کی مانند لگے گا۔