ارض فلسطین بالخصوص مسلمانان غزہ ایک بار پھر ناجائز ریاست کے عتاب کا شکار ہیں ایک ایسی جگہ کہ جس کے بارے میں حضرت محمد ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’ یہ حشر اور نشر کی سرزمین ہے‘ اور بلاشبہ اس علاقے سے ساڑھے چھ ارب انسانوں کا مستقبل وابستہ ہے ماضی بعید کی کئی جنگوں کے تانے بانے بھی اسی خطے سے جا کر ملتے ہیں حتیٰ کہ جنگ اول کی کھن گرج کے پیچھے بھی اسی علاقے کی نسوں گری جلوہ گر ہے عراق و افغانستان پر مسلط کی گئی کئی جنگوں کا مقصد بھی ’گرینڈ اسرائیل‘ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی تینوں مذاہب کے پیروکار اس شہر کو اپنے لئے مقدس سمجھتے ہیں مسلمان اس لئے یہ ان کا قبلہ اول ہے اور نبی کریمﷺ نے سفر معراج یہاں سے شروع کیا اور انبیاءکی جماعت کروائی حضرت عمرؓ اور صلاح الدین ایوبی کے ادوار سمیت مسلمانوںنے یہاں 1200 سو سال تک سب زیادہ وقت یہاں حکومت کی فلسطین کی سرزمین ایک بار پھر اسرائیلی ظلم اور درندگی کی زد میں آئی ہوئی ہے اڑھائی ہفتوں سے جاری گولہ باری و بمباری کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینی باشندوں کی تعداد تادم تحریر 6000 سے تجاوز کر چکی ہے جن میں 50 سے زائد بچے بھی شامل ہیں ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہونے والے ایک لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں 1500سے 2000تک مکانات ملیا میٹ ہو چکے ہیں غزی کا شہر لہو لہو ہے اس وقت اسرائیل امریکی سپورٹ کے ساتھ اک بار پھر فلسطین میں آگ اور خون کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے 18 لاکھ علم آبادی پر مشتمل غزہ کا علاقہ ایک جبل کا منظر پیش کر رہا ہے بیرون امداد کے دروازے تو پہلے ہی بند تھے اور اوپر سے زبردست فضائی بمباری بھی کی جا رہی ہے اور اس ساری صورتحال میں عالم اسلام نے بھی چپ سادھ لی ہے جس سے امت مسلمہ کے جسد واحد ہونے کا تصور ہی ختم ہو کر رہ چکا ہے یہودی اپنے مقاصد کی تکمل حماس کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو اس وقت اسرائیل کے مفادات کے سامنے آخری چٹان ہے اس وقت اسرائیل زیادہ تر معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اسے ڈر ہے کہ پھر کہیں ان میں سے کوئی صلاح الدین ایوبی پیدا نہ ہو جائےنکل کر صحرا جس نے روما کی سلطنت کو پلٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گیا مسلسل جاری اسرائیلی جارحیت اور سفاکانہ کاروائی پر مسلم و غیر مسلم کی آواز بند ہے آنکھیں اندھی ہو چکی ہیں اور کان بہرے ہو چکے ہیں کسی میں بھی بولنے کی سلطنت اور طاقت نہیں باالخصوص مسلمان کو اس طبقے سے بھی نہیں چلے گئے ہیں کہ جہاں ظلم کے خلاف اسے دل میں ہی براخیال کیا جاتا ہے اس کی مذمت کر لی جاتی ہے اسرائیل جٹ تیاروں کی بمباری نے ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کر دی ہے بلا امتیاز معصوم بچوں عورتوں بوڑھے اور جوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن کوئی بھی اسرائیلی اور یہودی لابی کو روکنے ٹوکنے کے لئے تیار نہیں ہے پچاس سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے کہ اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر جارحیت کے خلاف کوئی مضبوط اور موثر پلیٹ فارم نہ بن سکا پاکستان سعودی عرب متحدہ عرب امارات شام ایران عراق و دیگر کوئی بھی ایسا نہیں جو اس ظلم کو روکے اس آگ و کوں کے کھیل کی خدمت کرے فلسطین آج بھی صلاح الدین ایوبی کی راہ دیکھ رہی ہیں لیکن اپنا اپنے چاروں جانب بے حسی و چاپلوسی اور خالی خولی جہادی نعروں کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا وہ صرف اور صرف ان کی بے حسی پر ماتم کناں ہیں اور اپنے بھائی شوہر اور بیٹوں کو اپنی نگاہوں کے سامنے مرتا اور سسکتا دیکھ کر اب حرف خدائے واحد سے سوال کر رہی ہیں کہ اسے مولا کریم یہ قتل گاہ کب بند ہو گی کون ان ظالموں کے ہاتھ توڑے گا کون ان ناپاک نگاہوں کو پھوڑے گا کب صلاح الدین ایوبی آئے گا کب یہ ہوس کی بیماری نام نہاد مسلمان ملکوں کے بادشاہ شہنشاہ صدر اور وزیر اعظم اپنے اندر جذبہ ایمانی پیدا کریں گے یا الہی کب ییہ خونچکاں منظر بدلے گا اب توصرف تیرا ہی آسرا ہے دنیا میں کوئی نہیں جو ہماری مدد کرے تو ہی غیب ابابیل نازل فرما اسرائیل دنیا کے کسی قاعدے قانون کی پاسداری نہیں کرتا کھلم کھلا اقوام متحدہ کی قراردادی کو رھوندھا جا رہا ہے اور وہ ایسا کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے کیوں کہ اقوام متحدہ خود ان کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے اسے توبس مسلمان ہی دہشت گرد دکھائی دیتے ہیں وہ گر کسی یہودی یا غیر مسلم کو کوئی تکلیف پہنچا دیں تو پورا اقوام متحدہ اور اس کے بے غیرت اتحادی اور حواری پوری دنیا کو سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن بے شرموں کو یہ کھلی بربریت اور اسفا؛کی نظر نہیں آتی ان کی آنکھیں بند ہو چکی ہیں زبانوں پر تالے پڑ چکے ہیں اور او آئی سی والے کا روپ دھار چکی ہے اسرائیل ہلاکت کیمائی جوہری اور جراثیمی ہتھیاروں اور جدید ٹیکنالوجی کے سارے فلسطین کے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کرتا جا رہا ہے چار سو خون کی ندیاں چکی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ترک وزیر اعظم کے سوا پاکستان اور پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف احتجاج کا ٹوپی ڈرامہ رچایا جا رہا ہے جس کی حقیقت سے کوئی تلعق نہیں اور ویسے بھی ان لوگوں کا احتجاج کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جنہوں نے احتجاج کرنا ہے وہ برشرمی کی چادر اوڑھے خرگوش کی نیند سو رہے ہیں ہیومن رائٹس اقوام متحدہ اور آئی سی او دیگر کا کہیں کوئی کردار نظر نہیں آ رہا لہذا اگر آج بھی مسلمان نہ جاکے اسرائیلی جیسے گھوڑے کو لگام نہ ڈالی اور نکیل نہ کسی تو بھی تمہاری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں اب بھی وقت ہے کہ تمام مسلم امہ اور باالخصوص متحد ہو کر اور باآواز بلند اس کی مذمت کریں اور اگر نہیں مانتا تو اس کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی عار محسوس نہ کریں تب ہی انسانیت کی فلاح و بہبود کا کام ہو گا