خوداحتسابی ایک ایسا عمل ہے جو انسان کی کایاپلٹ سکتی ہے۔فطری طورپرعموماً ازخود کوئی شخص اپنی خامیوں،خرابیوں کی نشاندہی یاادراک نہیں کرسکتا۔کئی لوگوں کی بعض عادتیں یاتکیہ کلام ان کے لئے مذاق بن جاتاہے،لیکن وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ان کے ساتھ کیاہورہاہے اور دوستوں کی محفل میں ان پر طعن وتشنیع کے نشترکیوں چلائے جارہے ہیں۔بہت کم لوگ ایسے ہیں جواپنی نادانستہ غلطی کو بھانپ لیتے ہیں اور پھر ازخودہی اپنی اصلاح کرلیتے ہیں۔حالانکہ بیشترلوگ کسی مخلص دوست کی نشاندہی پربھی اپنی عادت سے مغلوب ہوکرایسی حرکات یاباتیں دوہراتے رہتے ہیں جو اُن کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔اسی طرح بعض اوقات ہماری قیاس آرائی اورخودساختہ تصورہمیں کسی ایسے مخلص اورہمدرد دوست سے محروم کردیتاہے جو ہمارے لئے دنیاکی بڑی سے بڑی نعمت سے بھی زیادہ اہم ہوسکتاہے۔لیکن ہماری خودساختہ سمجھداری ہمیں لے ڈوبتی ہے۔دین اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جوصرف اس کے ماننے والوں کو ہی راہ ہدائت اور مقصدحیات سے آشنا نہیں کرتابلکہ پوری انسانیت کے لئے مشعل نورہے۔اسلام نے ہمیں دوسروں کے حوالے سے حسن ظن کی تلقین کی ہے اورہم یہ قطعاًنہیں کہتے کہ آپ محتاط رویہ نہ اختیارکریں، لیکن بدقسمتی سے عمومی طورپرہم بدگمانی کا شکاررہتے ہیں اورخودساختہ آراء قائم کرلیتے ہیں۔یہ بہت عجیب سی بات اوربڑی بے وقوفی ہوتی ہے کہ ہم ازخودہی تصورکرلیں کہ زید”یہ“سوچ رکھتاہے اوربکر”ایسا“ہے۔حالانکہ زید ”یہ“سوچ رکھتاہے اورنہ ہی بکر”ایسا“ہوتاہے۔جیسا،ہم کسی کے بارے میں گمان کرتے ہیں،پھراس کو ویساہی پاتے ہیں، درحقیت یہ ہماری اپنی ہی سوچ کاشاخسانہ ہوتاہے۔عموماًلوگوں کودیکھاگیاہے کہ وہ دوسروں کی بات پریقین نہیں کرتے،اور یہی تصورکرتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔حالانکہ یہ درست طرزعمل نہیں ہوتا۔