عورت کی بے قدری حصہ سوئم
آج کل جہیز کی وجہ سے بھی معاشرے میں بہت ساری لڑکیوں کو انکار کیا جاتا ہے کہ لڑکے والوں کی فرمائش ہوتی ہے کہ ہمیں جہیز زیادہ سے زیادہ چائیے جو اس قابل ہوتے ہیں ان کی بیٹیوں کے رشتے جلدی ہو جاتے ہیں اور جو اس قابل نہیں ہوتے ان کی بیٹیاں گھروں میں ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔
ہمارے جاننے والے اپنی بیٹی کا رشتہ ڈھونڈ رہے تھے ان کی بیٹی کو اس وجہ سے انکار ہوا کہ ان کا ایک ہی بیٹا تھا انہوں نے کہا کہ آپ کا ایک ہی بیٹا ہے وہ کتنا کماتا ہو گا وہ اپنی بہن کو کیا جہیز دے گا اس لیے ہم نے نہیں ادھر شادی کرنی وہ لڑکی کے پہلے بھی ایک دو رشتے ٹوٹے تھے تو والدین نے اسے ہی بد نصیب کہنا شروع کر دیا کہ تم بد نصیب ہو اس لیے تمھارا رشتہ نہیں ہوتا انہیں لوگوں نے سمجھایا کہ اچھا ہی ہوا اگر بعد میں ایسا ہوتا کہ آپ نے اپنی بیٹی کو جہیز کم دیا ہے طلاق دے کر گھر بھیج دیتے تو زیادہ پریشانی والی بات تھی۔
اگر لڑکی کا رشتہ کہیں نہیں ہوتا اسے اس بات کا قصور وار کیوں ٹہرایا جاتا ہے؟ کہ اس کی قسمت ہی خراب ہے ہمیں اللہ پر بھروسا کرنا چائیے جہاں اس کے نصیب ہوتے ہیں وہاں رشتہ ہو کر ہی رہتا ہے نا کہ لڑکی کو بدقسمتی یا بد نصیبی کے طعنے دیے جائیں۔
آج کل لوگ کالے رنگ کی وجہ سے بھی رشتے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن لوگ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ کالا یا سفید رنگ اللہ کی دین ہے پھر یہ بار بار ان کے والدین کو یہ کہہ پر پریشان کیا جاتا ہے کہ آپ کی لڑکی کالی ہے اس وجہ سے ہم رشتہ نہیں کر رہے ضروری نہیں کہ جو لڑکی گوری ہے وہی نیک سیرت بھی ہو۔
پہلے دور میں اخلاق۔ رہن سہن۔اس کے ماں باپ دیکھے جاتے ہیں نا کہ لڑکی کی رنگت یا بے وجہ کی باتیں دیکھی جاتی تھی لوگ خوش اخلاق کی وجہ سے رشتہ پکا کر لیتے تھے لیکن آج کل صرف مال اور رنگ دیکھ کر لوگ رشتہ پکا کر لیتے ہیں بعد میں شادی چاہے دو دن ہی کیوں نہ چلے۔