غربت اور بروزگاری کی وجی سے لوگوں کا جسم کے حصے فروخت کرنا حصہ دوئم

Posted on at


 


غربت اور بروزگاری کی وجی سے لوگوں کا جسم کے حصے فروخت کرنا حصہ دوئم


 



 


 


لاہور کلمہ چوک کے قریب ایک ہوسپٹل ہے جو انسانی اعضا بیچنے کے لیے مشہور ہے ادھر امیر ممالک سے امیرامرا لوگ آتے ہیں جن کو کڈنی کا پروبلم ہوتا ہے یا اس طرح کے جسم کے کسی اعضا کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ یہاں سے اعضا حاصل کرتے ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں گردہ بیچنے والوں کو ۱سے ڈیڑھ لاکھ دیا جاتا ہے جب کہ ان امیرامرا سے ہزاروں ڈالروں میں پیسے لیے جاتے ہیں۔


اس کی ایک وجہ نے روزگاری بھی ہے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم نہیں ہوتے پہلے تو وہ نوکریوں کے لیے ذلیل و خوار ہوتے ہیں جب ان کو نوکریاں نہیں ملتی تو ایسے بھی لوگ دیکھنے میں آئیں ہیں جو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے جسم کے حصوں کو فروخت کرتے ہیں حکومت کو روزگار کے مواقع فراہم


 



 


 


کرنے چائیں تاکہ تعلیم یافتہ لوگ جو اپنا کاروبار نہیں کر سکتے وہ نوکری کر کے اپنے بچوں کو خوشخال زندگی دے سکیں۔


لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ چند پیسوں کے لیے اپنی موت کو خود دعوت دیتے ہیں وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ تھوڑی محنت کرکے کچھ پیسہ اکٹھا کر لیں اگر وہ اپنے جسم کا کوئی حصہ بیچیں گے تو ان کی باقی کی ساری زندگی تکلیف میں گزرے گی۔


اصل میں یہ لوگ مایوسی کا راستہ اختیار کرتے ہیں حالات جتنے بھی برے ہوں مایوس نہیں ہونا چائیے اور کوشش کرتے رہنا چائیے محنت سے ہر کام کیا جاسکتا ہے انسان کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چائیے محنت سے حلال رزق کمانے میں کوئی شرمندگی نہیں خواہ وہ کام چھوٹے سے چھوٹا ہی کیوں نہ ہو جیسے ایک موچی لوگوں کے جوتے سی کر اپنے بچوں کے لیے رزق اکٹھا کرتا ہے اس طرح مزدور دن بھر اینٹیں اکٹھی کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے یہ چھوٹے چھوٹے کام اپنے جسم کے اعضا بیچنے سے تو بہت بہتر ہیں ۔


 



 


ہاں اس میں ہمارے ملک کی قیادت کا بھی بہت قصور ہے کہ وہ ایسے مواقع ہی فراہم نہیں کر پا رہے کہ ایک آدمی کی زندگی گزرنا آسان ہو جائے اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان جن کو بہت اچھی نوکریاں ملنی چائیں ان کو چھوٹے چھوٹے کام کرنا پڑتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مایوس ہو کر غلط راستہ اختیار کرتے ہیں۔



About the author

mian320

I sm mr.

Subscribe 0
160