خواہشات حصہ دوئم
یہ ساری برائیاں انسان کے اندر خواہشات ہی کی وجہ سے آتی ہیں کہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پاس وہ چیز ہو جو اسے اچھی لگتی ہے اس کا حل مجھے تو یہی نظر آتا ہے کہ والدین کوبچے کو شروع ہی سے اعتدال پسندی کی عادت ڈالنی چاہیے اور اس کی ہر جائز اور ناجائز خواہش کر پورا نہیں کرنا چائیے جو اس کی جائز خواہش ہے اور جو جیب اجازت دیتی ہے وہ پوری کرنی چائیے جب والدین بچے کی ہر خواہش ہر خال میں پوری کرتے ہیں تو اسے ہر بات منوانے کی عادت ہو جاتی ہے اور وہ نہ برداشت نہیں کرتا ضروری نہیں کی جس طرح کے حالات اس کے والدین کے ساتھ ہیں اس کے بڑے ہونے تک بھی ویسے ہی رہیں جس اسے ہر بات منوانے کی عادت پڑ جاتی ہے تو وہ اپنی خواہش کر پورا کرنے کے لیے برے سے برا کام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا جس سے معاشرے میں بد امنی پھلیتی ہے۔
بہت سے مواشرے میں ایسے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں کہ بیٹے نے باپ سے کسی چیز کی فرمائش کی ہے کہ اس نے فلاں چیز لینی ہے مگر والدین کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں جتنے پہلے تھے تو وہ انکار برداشت نہیں کرتا اور خود کشی جیسا راستہ اختیار کر لیتا ہے کہ اس کی والدین نے بات نہیں مانی اس لیے بچے کی فرمائش ہمیشہ جیب دیکھ کر ہی پوری کرنی چائیے اسے شروع ہی سے احساس دلانا چائیے کہ ہماری کیا خثیت ہے اور ہم کون کون سی خواہش اور کس حد تک پوری کر سکتے ہیں تا کی اسے بھی پتہ ہو کہ والدین اس کی کیا خواہش پوری کر سکتے ہیں اور کیا نہیں۔
اس میں والدین کا بھی قصور ہوتا ہے کہ وہ لاڈ میں آ کر اپنے بچے کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں چاہے ان کی اتنی حثیت ہو یا نہ ہو بچے کو اپنے حالات سے آگاہ رکھنا چائیے تا کہ اس کو کفایت شعاری کی عادت ہو اور عادت ہو جتنی چادر ہو اتنے پاؤں پھیلانے کی اس سے یہ ہو گا کہ معاشرے میں خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کوئی کسی کا نقصان نہیں کرے گا اور بد امنی
نہیں پھیلے گی۔