آپ نے کسی گلی میں ایسے کئی بچوں کا مشاہدہ کیا ہو گا جن کے ہاتھ میں کوئی بوری ، پلاسٹک یا کپڑے کا تھیلا موجود ہو اور اور وہ اس میں وہ گلی سڑی اشیاء کے علاوہ کاغذ یا کتاب ڈال رہے ہوتے ہیں،سکولوں کے اطراف میں میں نے کئی بچوں کو ان کاموں میں مصروف عمل پایا۔ان بچوں کا تعلق عام طور پر غریب گھرانوں سے ہوتا ہے۔ان بچوں کے والدین معاشی طور پر اس قابل نہیں ہوتے کہ اپنے پھول جیسے بچوں کو سکولوں میں داخل کرا سکیں۔اگر وُہ ایسا کرنا چاہیں تو گھریلو اخراجات کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ان کی یہ سوچ بچوں کو سکول کے باہر رہنے پر مجبور رکھتی ہے۔وُہ نئی کتابیں خریدنے کی سکت تو نہیں رکھتے البتہ پرانی کتابوں کے اوراق کو فروخت کر کے اپنے گھر کے چولھے کو جلائے رکھنے میں اپنے والدین کی مدد ضرور کرتے ہیں۔تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور کوئی قوم بھی تعلیم کے حصول کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔بد قسمتی سے ہمارا مُلک تعلیم کے شعبہ میں پسماندہ ہے، ٹیلنٹس کی موجودگی میں بھی ہمارے نوجوانوں کے پاس ہُنر کی کمی ہے ،وسائل انتہائی کم ہیں،اورخواندگی کی شرح کچھ اس طرح ہے۔2002 کے ایک سروے اور محصولہ معلومات کے مطابق 13 سے25 سال کی عمر کے افراد میں شرح خواندگی 70 فیصد 25سے 35 سال کی عمر کے افراد میں60فیصد35 سے 45 سال کی عمر کے افراد میں 50فیصد45 سے55 سال کی عمر کے افراد میں 40فیصد جبکہ اس سے بالائی عمر کے افراد میں یہ شرح 30 فیصد ہے۔خواندگی میں مردوں کی نسبت خواتین کی خواندگی کی شرح کم ہے۔پاکستان میں کئی قابل لوگ روزگار کی تلاش میں اچھے معاوضہ کی بنیاد پر بیرون مُلک منتقل ہو جاتے ہیں۔ہمارے ملک میں نظام تعلیم کی تقسیم در تقسیم بھی ہماری پسماندگی کی ایک وجہ ہے اپر کلاس کے لوگ اپنے بچوں کو اچھے اور معروف تعلیمی اداروں میں داخل کر دیتے ہیں مگر غریب یہ سکت نہیں رکھتا،اس لئے مُستقبل کے اندہیرے دور نہیں ہو سکتے،مُفت اور یکساں نظام تعلیم ہی ان مسائل کا واحد حل ہے۔علاوہ ازیں یہ سوچنا وقت کی ایک ضرورت ہے کہ کس طرح چائلڈ لیبر فورس میں کمی کر کے انہیں تعلیم پرآمادہ کیا جا سکتا ہے۔
تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے
Posted on at