درجنوں نیوز چینل کے آغاز اور براہِ راست نشریات کے طنطنے میں جہاں خبر کی حرمت اور صحافی کا بانکپن اپنا وجود کھو رہے ہیں،، اُردو زبان بھی کشتۂ ستم بنی ہوئی ہے۔ خبریں پڑھنے اور پروگراموں کی میزبانی کرنے والے خواتین و حضرات اُردو کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ شکل و صورت، چرب زبانی اور آپے سے باہر ہو جانے کے علاوہ اور کسی معیار پر پرکھا نہیں جاتا۔ خبر کی ساخت و پرداخت ، سوال و جواب کا سلیقہ اور گفتگو کے آداب تو خالص صحافیانہ موضوعات ہیں اور ان پر تو لازمی عبور ہونا چاہیے۔ صحافت اور زبان کی خوبصورتی، لہجے کا لوچ اور ش ق کی درستگی کے درمیان لازمی تعلق کا تصور اب خطرے میں دکھائی دیتا ہے۔ انگریزی اصلاحات اور مرکبات کا جا بجا استعمال اور اُردو زبان کے روزمرہ و محاورہ کی غلطیاں ایسا معمول بن چکا ہے جس کی غیر معمولی سرزنش ضروری ہو چکی ہے۔ لکھا ہوئے کو پڑھ ڈالنا اور تحریر شدہ سکرپٹ کے بیانیے میں بھی کچھ تسلی بخش مہارت ہو تو زبان دانی کے اس ادنیٰ معیار سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے مگر تحریر و تقریر دونوں کی حالت سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدیر کا ادارہ مقابلے بازی کی چکی میں پس کر رہ گیا ہے۔ نیوز کاسٹر زخواتین و حضرات کو فی البدیہ گفتگو کرنی پڑے تو اس وقت چینل تبدیل کرنے کو دل کرتا ہے۔ خدا را اُردو زبان پر رحم کیجیے، ادارہ جاتی تربیت کا اہتمام نہیں تو خود ہی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر غور کیجیے۔ زبان ، لہجے، روزمرہ و محاورہ کو درست رکھنا کون سا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے؟