رسمِ خود کشی

Posted on at


وطنِ عزیز میں جہاں ہر شعبہ ہائے زندگی میں پسماندگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں وہاں خود کشی کرنے والے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ دنیا طلسمِ ہوشربا سے گلوبل ویلج بن گئی لیکن ہمارے یہاں ابھی تک خود کشی کے صدیوں پرانے طریقوں پر انحصار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کم ہی لوگ اس جانب مائل ہوتے ہیں اور ان میں سے جو عزمِ صمیم کر بھی بیٹھیں تو مروجہ مخاطرہ آمیز اور اذیت ناک طریقوں کی وجہ سے مٹھی بھر افراد ہی گوہرِ مراد پاتے ہیں۔ رہی سہی کسر ملکی حالات نے پوری کر دی۔ ؂
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو اک
آئے دن سنتے ہیں کہ بجلی کے کم وولٹیج کی وجہ سے جاں بحق ہونے کے بجائے روگی ہوش ٹھکانے کروا کے چنگا بھلا ہو جاتاہے، مزید یہ کہ اعصابی نظام قابلِ رشک ہو جاتا ہے۔ خود کش ادویات پھانکنے والے پیٹ کے کیڑے مار کر مزید توانا ہو جاتے ہیں۔ ریل کی پٹری پر لیٹا شخص چھ گھنٹے ٹرین لیٹ ہونے کی وجہ سے ارادہ تبدیل کر لیتا ہے یا قانون کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ کنویں میں چھلانگ لگانے والا کسی ماہر ہڈی پٹھہ جوڑ کا مستقل گاہک بن جاتا ہے اور یخنی کے لگاتار استعمال سے زندگی سے پیار کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ پٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگانے والا توجہ طلب چیخ و پکار کرتا ہوا ہجوم میں آ گھستا ہے۔
مذہبی، سماجی اور اخلاقی اقدار کے باوجود خود کشی کرنے والے کسی ایک کی نہیں سنتے ۔جمعے کے خطبے میں خود کشی کی مذمت کرتے ہوئے ایک واعظ بہت جذباتی ہوگئے ، فرمایا کہ خود کشی حرام ہے، گناہِ کبیرہ ہے، بزدلی بلکہ بزدلی کی انتہا ہے۔ ایسی قبیح اور گھٹیا حرکت کرنے سے بہتر ہے کہ بندہ خود کو گولی مار لے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ عموماً تین اقسام کی خودکشیاں ہی وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ اول قسم جنونی خودکشی ہے۔ اس فرقہ کے پیشوا سقراط ہیں۔ یہ خود کشی پڑھے لکھے، دانشورانہ سوچ کے حامل مذہبی و سیاسی افراد، انقلابی اور جنونی افراد میں یکساں مقبول ہے۔ مطلوبہ نتائج یا مقاصد پورے نہ ہونے پر کی جانے والی یہ خود کشی عموماً کامیاب رہتی ہے۔ بھلے وقتوں میں اس خود کشی کے حاملین کوبہت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنے والے خود کشی پہ مصر جنونی افراد نے اس سیادت سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اپنی خواہش کی تسکین کے لیے کسی موقع کی تلاش میں رہنے لگے اور موقع ملتے ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ حضرت نے فرمایا تھاکہ ۳۱؍ دسمبر۱۹۹۵ء تک پاکستان دُنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا(خدا نخواستہ)۔ چنانچہ یکم جنوری ۱۹۹۶ء کو ’’خس کم جہاں پاک‘‘ ۔ بنگلہ دیش بن گیا تو خود کشی کر لوں گا۔ اللہ نے توفیق بخشی۔
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ بچیں کہاں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
خود کرنیوالوں کی دوسری قسم کا تعلق جذباتی مسلک سے ہوتا ہے۔ آغاز میں خود کشی کی راہ میں حائل جن مشکلات کا ذکر ہے وہ اسی سلسلے سے وابستہ لوگ ہیں۔ حساس طبیعت اور عدم برداشت کی وجہ سے خود کشی پر مائل ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر بروقت کوئی طریقہ سجھائی نہ دے تو ارادے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ بعد میں ارادہ کر کے عمل نہ کرنے پر خود کو نیکی کا حقدار سمجھتے ہیں۔ اپنی حرکت پر شرمندہ شرمندہ سے رہتے ہیں۔ بچوں کی چھیڑ چھاڑ اور بڑوں کی طنز و تشنیع سے بچنے کے لیے سنجیدگی اور رعب سے کام لیتے ہیں۔ زیادہ تر افراد مذہب کا سہارا لیتے ہیں اور اپنے تئیں بلند مقام پاتے ہیں۔
خود کشی کرنے والوں کی آخری قسم کا تعلق ڈرامائی خود کشی سے ہے جو نوجوان لڑکے لڑکیوں اور خواتین میں بے حد مقبول ہے۔ اس طریقۂ خود کشی میں زیادہ تر پیچیدہ اور طویل دورانیے کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ریلوے ملازمین سے تسلی کر کے غلط پٹڑی پر لیٹ جانا، معمولی مقدار میں خواب آور ادویات کا استعمال، گولیاں نکال کر پستول کنپٹی پر رکھ لینا وغیرہ ان کے عمومی حربے ہیں جو کہ دراصل مطالبات منوانے کے لیے آزمائے جاتے ہیں۔
میرے ایک اتفاقیہ عزیز بارہا ایسی خود کشی کے مرتکب ہو چکے ہیں، جب کبھی وہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی ان کی بات ماننے کو تیار نہیں یا وہ اپنی بے تکی بات کو منوانے میں ناکام ہو رہے ہیں تو آخری حربے کے طور پر رسی تلاش کرتے ہوئے بالآخر چارپائی کی ادوائن کھولنے لگتے۔ جب تک ادوائن کھلتی، موصوف اپنی نصف توانائی خرچ کر چکے ہوتے ۔ بوجھل قدموں کے ساتھ رسی لے کر کمرے کا رخ کرتے، تاکہ پنکھے کے ساتھ جھول جائیں ، تب تک گھر کی عورتیں گلا پھاڑ پھاڑ کر پورا محلہ اکٹھا کر لیتیں ، مذاکرات کی محفل جمتی، کچھ لے کچھ دے کے اصول کے تحت بالآخر فریقین کچھ عرصے تک ہنسی خوشی زندگی گذارنے لگتے۔’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘ کے مصداق ایک دن جب رسی لیے کمرے میں پہنچے تو خلافِ معمول بھائیوں نے فیصلہ سنایا کہ خبر دار کوئی واویلہ نہ کرے نہ ہی اسے روکتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کتنی ہمت ہے اس میں۔
بگڑ چلا ہے بہت رسم خود کشی کا چلن
ڈر انے والو کسی روزکر دکھاؤ بھی
قصہ مختصر وہ دن اور آج کا دن کبھی بھولے سے خود کشی کا فیصلہ نہ کیا۔ خود کشی کے نقصان کے علاوہ کچھ ایسے شاعرانہ اور عاشقانہ مزاج لوگ بھی ہیں جو خود کشی کو بہت مسحور کن عمل گردانتے ہیں۔ خود کشی کی خواہش ہلکی آنچ کی طرح ان کے دلوں میں پلتی ہے جسے وہ ہمیشہ جوان رکھتے ہیں۔ محرومیوں اور پریشانیوں سے اسے پروان چڑھاتے ہیں لیکن کبھی عمل کی نوبت نہیں آتی۔ آج کی ملاقات تمام ہوئی ۔ زندگی رہی تو عید کے بعد ملاقات ہو گی۔ اس لیے کہ ان دنوں فیصل ساغر کا یہ شعر بار بار ذہن میں گونجتا ہے :
زندگی، شاعری، تعلیم، محبت، دُنیا
سوچتا ہوں مری ہر چیز ادھوری کیوں ہے

 

For more Subscribe me 

Thanks!



About the author

MadihaAwan

My life motto is simple: Follow your dreams...

Subscribe 0
160